Add To collaction

24-Jun-2023 ۔۔ ذی الحجہ رحمتوں برکتوں اور فضیلتوں کا موسم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ذی الحجہ رحمتوں، برکتوں اور فضیلتوں کا موسم 
ازقلم: سمیہ بنت عامر خان

اسلامی تقویم کا آخری مہینہ ذی الحجہ شروع ہوچکا ہے۔ چونکہ اس مہینہ میں اسلام کا پانچواں عظیم رکن ادا کیا جاتا ہے اس لیے اسے ذی الحجہ یعنی حج کا مہینہ اس نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ قرآن میں حج کی فرضیت کا اعلان کرتے ہوئے ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’لوگوں پر اللہ کا حق (فرض) ہے کہ جو اس گھر (کعبے) تک جانے کا مقدور رکھے وہ اس کا حج کرے اور جو اس حکم کی تعمیل نہ کرے گا تو اللہ بھی اہلِ عالَم سے بے نیاز ہے‘‘ (آل عمران)۔جس طرح حج کرنے پر فضیلت وارد ہوئی ہے، اسی طرح استطاعت کے باوجود اس میں غفلت برتنے پر بھی سخت وعید بھی وارد ہوئی ہے۔ رسول اللہ کا ارشادِ گرامی ہے’’جو شخص باوجود استطاعت کے حج نہ کرے، اللہ تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے، چاہے وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہو کر‘‘ (ترمذی)۔
ذی الحجہ کا پورا مہینہ ہی قابل ِ احترام ہے یہ پورا مہینہ ہی خدا کی قدرتوں اور حکمتوں کا آئینہ دار ہے لیکن اس کے ابتدائی دس دن اور راتیں تو بہت ہی فضیلت اور عظمت والے ہیں۔اللہ تعالیٰ  کی طرف سے اس مہینے میں رحمتیں برکتیں اور سعادتیں بندوں پر کس طرح سایہ فگن ہوتی ہیں قرآن اور حدیث کی روشنی میں ان کی جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ 
اس مہینے کی فضیلت و اہمیت کا ادراک کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اللہ رب العزت نے سورہ فجر کی پہلی آیت والفجر ولیالٍ عشر۔‘‘ ترجمہ: (قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی)میں جن دس راتوں کی قسم اٹھائی، علماء کا اتفاق ہے کہ وہ دس راتیں ماہ ذی الحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں۔ تو جس عشرہ کی خالق کائنات نے قسم کھائی ہو اس کی عظمتوں کا کیا پوچھنا،اس کے علاوہ اس مہینے کے پہلے عشرہ کا نام اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایام معلومات رکھا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما قرآن کی آیت (وَیَذْکَرُوا اسْمَ اللہِ فِیْ اَیَّامٍ مَعْلُوْمَاتٍ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ایام معلومات سے مراد یوم النحر (۱۰ ذی الحجہ) اور اس کے بعد دو دن ہیں۔ اس طرح اس مہینے کی اہمیت و فضیلت اس لیے بھی زیادہ ہے کیوںکہ یہ چار رحمت اور برکت والے مہینوں میں سے ایک ہے۔ اللہ تعالی نے سال کے بارہ مہینوں میں جن بعض دنوں اور راتوں کو خاص فضیلت بخشی ہے ان میں ذی الحجہ کے شروع کے دس دن بھی شامل ہیں۔ 
ذوالحج کے پہلے عشرہ کی فضیلت کے بارے میں قرآنی آیات کے ساتھ ساتھ کثرت سے احادیث صحیحہ بھی وارد ہوئی ہیں۔حدیث مبارکہ میں الله کے رسول ﷺ نے ماہ ذی الحجہ کے پہلے عشرے کے متعلق ارشاد فرمایا کہ اللہ کے نزدیک عشرہ ذوالحجہ سے زیادہ پسندیدہ دن کوئی اور نہیں جس میں اس کی عبادت کی جائے اس عشرہ ذی الحجہ کے ہر دن کا روزہ ایک سال کے متواتر روزوں کے برابر ہے اور اسکی ہر رات میں قیام لیلۃ القدر میں قیام کے برابر ہے۔ (ترمذی 758)
ایک حدیث میں نبی کریم ۖ نے عشرہ ذی الحجہ کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:کہ کوئی دن ایسا نہیں ہے کہ جس میں نیک عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں ان (ذی الحجہ کے) دس دنوں کے نیک عمل سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہو۔ صحابہ کرام  نے عر ض کیا کہ اے اللہ کے رسول!کیا یہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی بڑھ کر ہے؟
تو رسول اللہ ۖنے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی بڑھ کر ہے، مگر وہ شخص جو جان اور مال لے کر اللہ کے راستے میں نکلے، پھر ان میں سے کوئی چیز بھی واپس لے کر نہ آئے (سب اللہ کے راستے میں قربان کردے، اور شہید ہوجائے یہ ان دنوں کے نیک عمل سے بھی بڑھ کر ہے؟)(ترمذی:حدیث نمبر؛687) 
ذی الحجہ کے دس دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب دنوں سے افضل ہیں۔ ان دنوں میں عبادت اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے یہاں (ذی الحجہ کے ) دس دنوں کی عبادت سے بڑھ کر عظیم اور محبوب تر کوئی عبادت نہیں لہٰذا ان میں“ لا الہ الا اللہ، اللہ اکبر، الحمد للٰہ ”خوب کثرت سے پڑھا کرو۔ (احمد)
یعنی عشرہ ذی الحجہ میں کثرت سے اللّٰہ رب العزت کا ذکر کرنا بھی نبیوں کی سنت ہے۔ علماء کرام خصوصی طور پر سبحان اللّٰہ،اللّٰہ اکبر اور الحمد للّٰہ کے ذکر کی تلقین کرتے ہیں۔ اسی طرح اس پورے عشرہ کے ایک دن‌ یعنی یوم عرفہ یعنی ذی الحجہ ‌کی نویں تاریخ ایک خاص حیثیت کی حامل ہے۔ اس دن بے شمار لوگوں کی مغفرت کی جاتی ہے۔ اس دن‌ حج کا سب سے بڑا رکن وقوف عرفہ ادا کیا جاتا ہے۔اسلام کے عظیم رکن حج  کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ اس دن لاکھوں انسان میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں اور دل کی گہرائیوں سے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اس سے مغفرت و بخشش طلب کرتے ہیں۔  عرفہ کے دن کی دعا کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "سب سے بہترین دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے، اور سب سے افضل دعا جو میں نے اور مجھ سے پہلے انبیاء علیھم السلام نے کی وہ یہ ہے : لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد و ھو علی کل شئی قدیر ”(ترمذی ) لیکن ہمارا رب جو رحمن و رحیم ہے اس نے اس دن روزے کی عظیم الشان فضیلت مقرر کر کے حاجیوں کے ساتھ ساتھ غیر حاجیوں کو بھی اس دن کی فضیلت سے اپنی شان کے مطابق مستفید ہونے کا موقع عنایت فرمایا۔ حدیث میں اس خاص دن کو خاص انداز سے بیان کیا‌‌ گیا  پورے سال کے دن میں اسے افضل دن قرار دیا گیا ہے۔ 
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے عرفہ (یعنی نو ذی الحجہ ) کے روزہ کے بارے میں پوچھا گیا تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا: (نو ذی الحجہ کا روزہ رکھنا) ایک سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ (مسلم) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ عرفہ کے دن کا ایک روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کی معافی کا سبب بنتا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ نویں ذی الحجہ کے دن روزہ رکھنے کا اہتمام کریں۔
یوں تو ذی الحجہ یہ پورا ایک ہی مہینہ بے شمار برکتوں سے بھرا ہوا ہے۔لیکن دسویں ذی الحجہ کا دن سب سے زیادہ معظم ہے۔ کیونکہ اس دن ہر مسلمان قربانی کرکے سنت ابراہیمی کو زندہ کرتے ہیں۔  یوں تو قربانی کا عمل ہر امت کے لئے رہا ہے۔ 
جیساکہ سورہ حج میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ : وَلِکِلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسِکًا لِیَذْکُرُوا اسْمَ اللہِ عَلَی مَا رَزَقَھُمْ مِنْ بَھِیْمَةِ الْاَنْعَامِ (سورة الحج ۳۴) ہم نے ہر امت کے لیے قربانی مقرر کی؛ تاکہ وہ چوپایوں کے مخصوص جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے۔ لیکن حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی اہم وعظیم قربانی کی وجہ سے قربانی کو سنتِ ابراہیمی کہا جاتا ہے۔ابراہیم علیہ السلام کی یہ ادا رب العالمین کو اس قدر پسند آئی کہ تاقیامت اس سنت کو امت محمدیہ پر واجب کردیا۔ اب ہر سال صاحب استطاعت مسلمان گائے، بیل، بکرے،دنبے وغیرہ کی قربانی کرکے ﷲ کی راہ میں خون بہاکر سنت ابراہیمی کو زندہ کرتے ہیں۔ 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر سو اونٹوں کی قربانی پیش فرمائی تھی جس میں سے ٦٣ اونٹ کی قربانی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھوں سے کی تھی اور بقیہ ۳۷ اونٹ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نحر (یعنی ذبح) فرمائے۔ (صحیح مسلم ۔حجة النبی صلی اللہ علیہ وسلم) یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد (ذی الحجہ کی ۱۰ تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں) کا عملی اظہار ہے۔
دیگر اعمال صالحہ کی طرح قربانی میں بھی مطلوب ومقصود رضاء الٰہی ہونی چاہیے، جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ صَلاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن (سورة الانعام ۱۶۲) میری نماز، میری قربانی، میرا جینا، میرا مرنا سب اللہ کی رضامندی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ 
اسی لئے ہمیں چاہیے کہ ہم غریبوں اور مسکینوں کا ہر وقت خیال رکھتے ہوئے عید الاضحی کے ایام میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی عظیم قربانی کی یاد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔جیسا‌کہ سورہ حج کی آیت 28 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: 
(لِّيَشۡهَدُوۡا مَنَافِعَ لَهُمۡ وَيَذۡكُرُوا اسۡمَ اللّٰهِ فِىۡۤ اَ يَّامٍ مَّعۡلُوۡمٰتٍ عَلٰى مَا رَزَقَهُمۡ مِّنۡۢ بَهِيۡمَةِ الۡاَنۡعَامِ‌‌ ۚ فَكُلُوۡا مِنۡهَا وَاَطۡعِمُوا الۡبَآئِسَ الۡفَقِيۡـرَ۔)اپنے فائدے حاصل کرنے کو آجائیں اور ان مقررہ دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں ان چوپایوں پر جو پالتو ہیں پس تم بھی کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ۔ 

قربانی ایک اسلامی شعار ہے اور جو شخص قربانی کرسکتا ہے اس کو قربانی کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ: لَن یَّنَالَ اللہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَاوٴُھَا وَلٰکِن یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ (سورة الحج ۳۷) اللہ کو نہ اُن کا گوشت پہنچتا ہے نہ اُن کا خون؛ لیکن اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ آئیے حدیث مبارکہ کی رو سے قربانی کیا ہے اور  اس کی اہمیت و فضیلت کا جائزہ لیں۔
حضرت زید بن ارقمؓ فرماتے ہیں’’ اللہ تعالیٰ کے رسول سے صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: یہ تمھارے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ انہوں نے عرض کیا: اس میں ہمیں کیا ملے گا؟ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: ہر ہر بال کے بدلے ایک نیکی، اور فرمایا: اون کے ہر بال کے بدلے (بھی) ایک نیکی(ابن ماجہ) 
 اس لیے ہر صاحبِ استطاعت کو قربانی ضرور کرنی چاہیے۔ ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: جس شخص کو قربانی کی وسعت حاصل ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ بھٹکے۔ (سنن ابن ماجہ)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضورِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا (اس قیام کے دوران) آپ  صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کرتے رہے۔ (ترمذی)
اس طرح ام الموٴمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  فرماتیں ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ذی الحجہ کی ۱۰ تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کرنے والا اپنے جانور کے بالوں ، سینگوں اور کھروں کو لے کر آئے گا (اور یہ چیزیں اجروثواب کا سبب بنیں گی) اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرفِ قبولیت حاصل کرلیتا ہے ، لہٰذا تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو۔ (ترمذی)
 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو، اور تم میں سے کسی کا قربانی کا ارادہ ہو تو وہ جسم کے کسی حصہ کے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ (صحیح مسلم)
قرآن و احادیث سے یہ ثابت ہوا کہ دس ذی الحجہ یعنی عید الاضحی کے دن قربانی کا عمل رب ذوالجلال کو کتنا پسند ہے۔
غرض یہ کہ سال کا ایک مہینہ جو اتنی ساری رحمتوں، فضیلتوں اور برکتوں کا موسم ہے اسے ہاتھ سے کاہلی اور سستی میں نہ گنوائے بلکہ ان دس دنوں کو غنیمت جان کر ان میں زیادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت کریں، اللہ کا ذکر کریں، روزہ رکھیں، قربانی کریں۔ یہ رب العالمین کی طرف سے عوام الناس کے لئے ایک پیکیج ہے کہ رمضان المبارک یعنی ایام معدودات میں کہیں عبادت میں کوتاہی رہ گئیں ہو۔ وہ ایام معلومات یعنی ذی الحجہ کے دس دنوں سے بھرپور فائدہ اٹھاۓ اور اپنے رب سے کی گئی کوتاہیوں اور سستی کی معافی طلب کرے۔ اس پیکیج کا بھرپور فائدہ اٹھاۓ اور اپنے آپ کو اعمال صالحہ کی طرف لائے اور اللہ کا تقرب حاصل کرے۔ اب بھی وقت ہے غفلتوں سے نکل آئے۔اے امت مسلمہ! ان ایام کی قدر کریں، اس وقت کو غنیمت جانیں۔ کیونکہ ان ایام کا کوئی بدل نہیں۔خواہشوں کے پورے ہونے میں حائل ہونے والی موت سے قبل جتنا جلدی ہوسکے نیک کاموں میں سبقت لے جائیں۔ رات کی غفلت سے نکل آئے۔ رات کی سیاہی جتنی بھی دراز ہو زنگ آلود دل کو اللہ کی رحمت و فضل کے جھونکے سے روشن کرے اور رب کے سعادت مند اور جنت کے حقدار بنیں۔

   15
0 Comments